مرسر چٹان/Marsur Rock پر پہنچنے کا راستہ
وطن عزیز پاکستان کے علاقے/Marsur rock گلگت بلتستان میں واقع سکردو کا شہرکسی تعارف کا محتاج نہیں۔ یہ شہر سلسلہ کوہ قراقرم سمیت دنیا کے بلند ترین پہاڑوں کا مسکن ہے۔ یہاں دنیا کے طویل ترین غیر قطبی گلیشیئرز ہونے کے ساتھ ساتھ دنیا کے بلند ترین چٹانی سلسلے بھی واقع ہیں۔ بلندی کے لحاظ سے مشہور یہ دو چٹانی سلسلے ٹرانگو ٹاورز اور مستاغ ٹاورز کے نام سے موسوم ہیں۔ لیکن ان سلسلوں کے ساتھ ساتھ سکردو شہر اور گردو نواح میں چند ایسی چٹانیں بھی بکھری پڑی ہیں جو اپنی ہیئت اور شکل کی وجہ سے منفرد ہیں۔ زیر نظر سطور میں انہی چٹانوں میں سے چند چٹانوں بالخصوص مرسر چٹان کا تعارف پیش خدمت ہے ۔
مرسر چٹان تک کیسے پہنچا جاۓ
یہ چٹانیں سکردو کے قریب ایک قصبہ حسین آباد میں واقع ہیں۔سکردو شہر سے حسین آباد کا فاصلہ کم و بیش 16 کلومیٹر ہے۔ یہ سفر شاہراہ کارگل پر بآسانی طے کیا جاسکتا ہے۔ حسین آباد سطح سمندر سے کم و بیش 7500 کی بلندی پر واقع ایک خوبصورت قصبہ ہے جس کے مرکزی چوک سے ایک راستہ جنوب کی طرف اوپر پہاڑ پر چڑھتا ہے۔ چند کلومیٹر تک سڑک تعمیر کردی گئی ہے اس کے بعد راستہ کچا ہے۔ لیکن کار اور موٹر سائیکل بھی اس راستے پر چلتی ہیں۔یہ کچا راستہ ایک گاؤں میں اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ اس گاؤں کا نام گوما 1ہے۔ یہاں ایک مقام پر موٹر سائیکل اور کاریں پارک کی جاسکتی ہیں۔گوما 1 کی بلندی کم و بیش 8600 فٹ ہے۔
گوما 1 سے آگے سارا سفر پیدل اور چڑھائی کا ہے۔ جنوبی سمت ایک ٹاپ نظر آتا ہے جو ضلع کھرمنگ کے مقام مہدی آباد جانے کا پیدل اور مختصر راستہ ہے۔ یہ راستہ کتی شو نالے میں اترتا ہے۔ موسم بہار اور موسم گرما میں اس نالے کی خوبصورتی قابل دید ہوتی ہے۔
مرسر چٹان کی طرف جانے والا راستہ ایک بنجر پہاڑ پر چڑھتا چلا جاتا ہے۔ موسم گرما میں چند جڑی بوٹیاں اور درخت ہریالی ظاہر کرتے ہیں لیکن زیادہ تر راستہ پتھروں اور چٹانوں پر ہی مشتمل ہے۔ یہ راستہ مسلسل چڑھائی مائل ہے۔ مقامی لوگوں نے مرسر چٹان تک راستے میں آرام کے لیے دو عدد آرام گاہیں تعمیر کی ہیں جو لکڑی سے تیار کردہ ہیں۔ پہلی آرام گاہ کی بلندی کم و بیش9700 فٹ ہے۔ اسے کیمپ 1 کا نام دیا گیا ہے۔ اس مقام سے پستی میں خوبصورت مناظر نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں۔ دریائے سندھ ایک بل کھاتی لکیر کی مانند نظر آتا ہے۔
کیمپ 1 سے اوپر جائیں جائیں تو مختلف اشکال اور ہیئت کی چٹانیں نظر آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ان چٹانوں کی یہ صورتیں اور خدوخال قدرتی ہیں۔ ایک چٹان سمندر کی لہر کی مانند نظر آئی۔ ایک چٹان یوں تھی گویا کوئی جانور بیٹھا ہوا ہو۔ انہیں چٹانوں کے درمیان چلتے ہوئے آرام گاہ نمبر 2 پہنچ جاتےہیں۔ اسے کیمپ 2 کہا جاتا ہے۔ کیمپ 2 کی بلندی کم و بیش 10600 فٹ ہے۔ کیمپ 2 سے آگے مزید مختلف الاشکال چٹانیں واضح ہوجاتی ہیں۔
مرسر چٹان کے ایک ذاتی سفر کا احوال
مرسر چٹان کے اس سفر میں میرے ہمراہ حسین آباد کے نذیر بھائی اور عارف شاہ تھے۔ نذیر بھائی سے میرا احترام اور شفقت کا تعلق ہے۔ ان سے پہلی ملاقات موسم سرما میں سکردو کے ایک سفر کے دوران ہوئی جو ہم نے 2020 کی سردیوںمیں کیا تھا۔ عارف شاہ سے بھی چند سال قبل ملاقات ہوچکی تھی جب ہم موسم سرما میں اس کے ہمراہ حسین آباد کی سیاحت کے لیےگئے تھے۔
ہم نے مرسر چٹان کی طرف اپنا پیدل سفر 08:15 بجے شروع کیا۔ چونکہ سفر چڑھائی کا تھا لہٰذا آغاز میں مشکل پیش آئی۔ لیکن جیسے جیسے ہم اوپر چڑھتے گئے ہمارے بدن چڑھائی کے عادی ہونے لگے۔ کم وبیش 45 منٹ پیدل سفر کے بعد ہم کیمپ 01 پر پہنچے۔ اگرچہ ہم راستے میں وقفے لیتے آئے تھے جن کا دورانیہ 30 سیکنڈ سے 2 منٹ تک ہوتا تھا۔ کیمپ 01 پر 10 منٹ آرام کیا۔ سانسوں کی الجھی ڈور سلجھا کر پھر چل پڑے۔ ہمارے سامنے مختلف چٹانیں واضح ہونا شروع ہوگئیں۔ جیسے جیسے اوپر چڑھتے گئے عمیق وادی اور پہاڑوں کے درمیان دریائے سندھ کے مناظر دلکش ہونے لگے۔ آج کل موسم سرما کے آخری دن تھے۔ گزشتہ دو روز سے پہاڑوں کی چوٹیوں پر برفباری کا سلسلہ جاری تھا۔ کیمپ 01 سے روانہ ہوئے توجلد ہی ہم آہستہ آہستہ اس مقام تک پہنچ گئے جہاں سے آگے جگہ جگہ برف تھی۔ برف پر چلنے سے کرچ کرچ کی خوبصورت آواز پید ا ہوتی تھی۔ چند ایک عمودی چٹانیں چڑھیں ۔ اب اوپر کیمپ 02 نظر آرہا تھا۔
کیمپ 01 سے کیمپ 02 تک کا فاصلہ ہم نے 30 منٹ میں طے کرلیا۔ یہاں بھی 10 منٹ کے لیے رکے اور بدن کو آرام فراہم کیا۔ کیمپ 02 سے مرسر چٹان تک بعض مقامات پر عمودی چٹانوں پر چڑھنا پڑا۔ چند مختلف الاشکال چٹانوں کی عکس بندی کی۔ میں ایک چٹان پر سانس درست کرنے کے لیے بیٹھا ہوا تھا کہ انور بھائی ساکن سرمک کی فون کال آگئی۔ ان سے دس منٹ کی بات چیت میں مجھے پورا زور لگا کر بولنا پڑا۔ ایک تو ہوا بہت تیز تھی دوسرے سگنل کمزور تھے جس کی وجہ سے دوسری طرف میری آواز کم سنائی دے رہی تھی۔ اس کانقصان مجھے یہ ہوا کہ میرا گلا خشک ہوگیا۔ نذیر بھائی اور عارف میرے قریب سے گزر کر اوپر جاچکے تھے۔ لہٰذا میں بھی روانہ ہوگیا اور مزید 30 منٹ کے سفر کے بعد مرسر چٹان پر پہنچ گیا۔مرسر چٹان تک پہنچنے میں ہمارا سوا دوگھنٹے کا کل وقت صرف ہوا۔
مرسر چٹان کی سطح سمندر سے بلندی کم و بیش 11400 فٹ ہے۔ یہ ایک بڑی چٹان ہے جس کا 8تا 10 فٹ کا حصہ ہوا میں معلق ہے۔ جوں جوں چٹان باہر نکلتی جاتی ہے اس کی چوڑائی کم ہوتی جاتی ہے اور اختتام پر ایک نوکدار شکل اختیار کر لیتی ہے۔ یہاں سے نیچے دیکھیں تو سر چکراتا ہے۔ ہزاروں فٹ کی گہرائی منہ کھولے ہوئے ہے۔ ہائیٹ فوبیا کے شکار افراد اس سے اجتناب ہی کریں تو بہتر ہے۔
مرسر چٹان سے نیچے دیکھیں تو حسین آباد کا علاقہ نظر آتا ہے۔شاہراہِ کارگل سکردو کے پار بل کھاتا ہوا دریائے سندھ ایک دلفریب منظر پیش کرتا ہے۔ سفید ریت میں اس کے زمرد پانی بلا شبہ قدرت کے حسین رنگ ظاہر کرتے ہیں۔ دریا کے پار مشہور و معروف سرفرنگا صحراء پھیلا ہوا ہے۔ ذرا دائیں طرف اسی صحراء میں وادی شگر کی طرف راستہ جاتا ہے جو ایک پختہ سڑک ہے۔ سفید ریت میں سیدھی سیاہ سڑک یوں معلوم ہوتی ہے گویا ایک صفحے پر پیمانے سے سیاہ لکیر کھینچ دی گئی ہو۔ یہ سڑک پہاڑوں میں داخل ہوجاتی ہے اور پھر ان پہاڑوں کے پارشگر شہر میں جانکلتی ہے۔صحراء کے درمیان شاہراہ پر تعمیر کیا گیا بابِ شگر بھی دکھائی دیتا ہے۔ مرسر چٹان سے شگر شہر کا نظارہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
مرسر چٹان سے بائیں طرف نگاہ دوڑائیں تو سکردو شہر کا نظارہ بھی قابل دید ہے۔ یہاں سے نہ صرف کھرڈونگ پہاڑی پر واقع قلعہ کھرپوچوئے ، کٹپنا صحراء اور کٹپنا صحراءکے ساتھ دریائے سندھ کے پار کواردو دکھائی دیتا ہے بلکہ سکردو کے بین الاقوامی ہوائی اڈے کی ہوائی پٹی بھی نظر آتی ہے۔ مزید بائیں طرف سکردو شہر کے پہریدار یعنی بلند پہاڑ سر اٹھائے کھڑے ہے۔
تمام اطراف کی عکس بندی اور ایک گھنٹہ مرسر چٹان پر قیام کے بعد ہم نے واپسی کا قصد کیا۔چڑھائی اگر سیر تھی تو اترائی سوا سیر۔ ہمارے بدن چڑھائی کے سفر سے تھرتھراہٹ کا شکار تھے۔ واپسی کے سفر میں چند مختلف الاشکال چٹانوں کی عکس بندی کی اور کم و بیش دو گھنٹے پیدل سفر کے بعد ہم واپس گوما 01 پہنچ گئے۔ پہنچتے ہی گھاس کے قطعہ پر یوں لیٹ گئے گویا اب شام کے بعد ہی اٹھیں گے لیکن واپسی کا سفر تو کرنا تھا۔ حسین آباد پہنچ کر بغیر کسی وقفہ کے اپنی موٹر سائیکل کا رخ سکردو کی طرف کیا اور بعد ازدوپہر واپس اپنی قیام گاہ پہنچ گیا۔
مرسر چٹان کے دلکش نظارے
مرسر چٹان کا راستہ اگرچہ کچھ حدتک دشوار ہے لیکن منزل پر پہنچ کر جو نظارے نظر آتے ہیں وہ قدرت کے ایسے دلکش رنگ ہیں جن کا کوئی جواب نہیں، کوئی ثانی نہیں۔